’حیدرآبادپولیس ایکشن‘‘ سید شعیب ہاشمی

’حیدرآبادپولیس ایکشن‘‘
  سید شعیب ہاشمی
 بات ان دنوں کی ہے جب ہم کالج میں زیر تعلیم تھے۔ ایک مرتبہ۱۷؍ستمبر کو کالج جانے کے بجائے ہم اپنے گھر ’’مکتی سنگرام دن‘‘کی چھٹی منانے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔ والد محترم نےجو اس وقت کچھ افسردہ نظر آرہے تھے ہمیں گھر سے باہر جانے سے منع کردیا۔ ہم نے وجہ جاننا چاہی تو انہوں نے ایک آہ بھرتے ہوئے ہم سے کہا کہ ’’بیٹا آج ۱۷؍ستمبر ہے اور تم اس دن کے بارے میں کچھ جانتے بھی ہو؟‘‘، ہم نے نفی میں سرہلایا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ہمیں ۱۷؍ستمبر ۱۹۴۸ء کے رونگٹے کھڑے کردینے والے وہ واقعات سنائےجو خود ان پر اور دادا جان پر بیت چکے تھے۔ والد محترم نے بتایا کہ۱۷؍ستمبر ۱۹۴۸ء آزاد ہندوستان کا بدترین دن کہلاتاہے۔ حیدرآباددکن کو ملک میں ضم کرنے کے نام پر ملک کی فوج اور شرپسندوں نے دکن کےبیشتر علاقوں میں مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر جانی اورمالی نقصان کیا۔ اس کارروائی کو ’’پولیس ایکشن یا آپریشن پولو‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ رضاکاروں کے خلاف کارروائی کے بہانے مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی۔ اس مہم کے ذریعے مسلمانوں کو بے دردی سے سرعام قتل کیا گیا۔ ہزاروں مسلم خواتین نے اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کی خاطر اپنے شیر خوار بچوں کو لے کر ندیوں، تالابوں اور کنوؤں میں کود گئیں۔ مسلمانوں کا اس قدر خون بہایا گیا کہ شہروں کے کئی کنویں اور تالاب لاشوں اور خون سے بھر گئے تھے جس کی وجہ سے کئی دنوں تک نلوں میں لال رنگ کاپانی آتا رہا۔ اپنی جان بچانے کیلئے ہزاروں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر جنگلوں اور کھیتوں میں پناہ لینےپر مجبور ہوگئے۔ ان کی جائیدادوں پر قبضہ کرلیاگیا۔ ہندوستانی فوج کے علاوہ اکثریتی طبقے کے لوگ بھی مسلمانوں کے سخت دشمن بن گئے تھےاور دو طرفہ مظالم کا سلسلہ جاری تھا۔ اس کے علاوہ والد صاحب نےکئی ایسے واقعات سنائے جنہیں قلم ضبط تحریر لانے سے قاصر ہے۔ ’’پولیس ایکشن‘‘ کانام سن کر آج بھی اُس دور کے افراد کانپ اٹھتے ہیں جنہوں نے اس قتل و غارت گری اور لوٹ مار کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ستمبر کا مہینہ انہیں ستم گر محسوس ہوتا ہے۔ ۱۷؍ستمبر۱۹۴۸ء کو ایک طرف جہاں علاقہ دکن کے لاکھوں بے قصوروں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا وہیں اسی تاریخ کو ہرسال مراٹھواڑا کے سرکاری دفتروں میں ہندوستانی پرچم لہرا کر ’’مراٹھواڑہ مکتی سنگرام دوس‘‘کی مناسبت سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دکن کے دیگر علاقوں میں بھی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیامسلمانوں کی خون کی ہولی کھیلنے کی یاد میں سرکاری طور پر اس تقریب کا انعقاد کیا جاتا ہے یا صرف ایک مسلم حکمراں کی مخالفت میں اس تقریب کا انعقاد کیا جاتا ہے؟ ۱۷؍ ستمبر کی تاریخ سےحیدرآباد دکن کےمسلمانوں کی تلخ یادیں جڑی ہیں۔ اس سلسلے میںمہاراشٹر کی مختلف سماجی تنظیمیں کئی برسوں تک یہ مطالبہ کرتی ر ہیںکہ اس دن کسی طرح کاجشن مناکر مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائی جائے۔ اس کے علاوہ پولیس ایکشن کے نام پر ہونے والے قتل عام پر پنڈت سندر لال نے جو رپورٹ پیش کی تھی اس کو منظر عام پر لایا جائے اور فساد متاثرین کو معاوضہ دیا جائے۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف ان تنظیموں کے جذبات سرد ہوگئے ہیںبلکہ علماء کرام نےبھی اس معاملہ پر خاموشی اختیار کرلی ہے۔
⁠⁠⁠⁠5:46 PM⁠⁠⁠⁠⁠

Post a Comment

0 Comments