ایس ایس سی بورڈ امتحان میں داخلی نمبرات کی دوبارہ بحالی


ایس ایس سی بورڈ امتحان میں داخلی نمبرات کی دوبارہ بحالی


گزشتہ سال ایس ایس سی بورڈ کا نصاب تبدیل ہوا۔اسی کے ساتھ کافی غور وخوض کرکے اسکول میں ہر مضمون میں، مضامین کے اساتذہ کی جانب سے دیئے جانے والے داخلی 20 نمبرات کاجو دیرینہ طریقہ رائج تھا وہ ختم کردیا گیا۔سو گزشتہ سال طلباء نے سو سو نمبرات کے سوالیہ پرچے حل کیے۔صرف سائنس اِس مضمون میں بیس نمبرات پریکٹیکل امتحان لے کر دیے گئے تھے۔جن طلباء و طالبات نےگزشتہ سال معیاری نمبرات حاصل کیےانہوں نے واقعی بہت محنت کی ہوگی کیوں کہ انہوں نے یہ اچھے مارکس، داخلی نمبرات کے سہارے کے بغیر حاصل کئے۔
لیکن ہوا یوں کہ معیاری نمبرات حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات جب گیارہویں جماعت میں داخلہ لینے گئے تو کثیر طلباء جنہوں نے اس سسٹم کے رائج رہتے ہوئے بھی اچھے نمبرات حاصل کیے تھے وہ گیارہویں میں اپنے پسندیدہ کالجز میں داخلہ پانے میں ناکام رہے۔سی بی ایس ای اور آئی بی جیسے دوسرے بورڈ کے طلباء نے میرٹ کی بنیاد پر داخلہ حاصل کرنے میں بازی مار لی۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انھیں ہر مضمون میں 20 انٹرنل مارکس کا فائدہ حاصل ہوا۔انہوں نے 80 مارکس کے پرچے لکھے تھے۔سو مجموعی طور پر ان کا فیصد ہمارے ایس ایس سی بورڈ سے دسویں پاس ہونے والے طلباء سے زیادہ رہا اور گیارہویں جماعت میں داخلہ پانے کے لئے وہ بچّے آگے آگے رہے اور ہمارے طلباء پیچھے!
یہی وجہ تھی کہ کثیر طلباء کے والدین کے ایک وفد نے وزیرِ تعلیم ونودتاؤڑےسے ملاقات کی ،انہوں نے داخلی نمبرات نہ دیئے جانے کے مہاراشٹربورڈ کے اس فیصلے کا دوسرا رخ ان کے سامنے واضح کیا اوردو مانگیں بھی سامنے رکھیں۔
1۔دسویں جماعت کے امتحانات کے لئے ایک ہی طرح کا نظام رائج کیا جائے۔سبھی بورڈ نے 80 نمبرات کے پرچے لئے جائے اور تمام مضامین کے لئے انٹرنل 20مارکس مختص ہو۔
2۔اگر مہاراشٹر بورڈ نے طلباء کو اب یہ انٹرنل 20 مارکس دینا بند کر دیا ہے تو دوسرے بورڈ کے طلباء کے بھی داخلی نمبرات کو چھوڑ کر میرٹ کی بنیاد پر داخلہ دیا جائے۔انکے بھی داخلی نمبرات کو نا گنا جائے تا کہ تمام بورڈ کے طلباء کو داخلہ پانے کا یکساں نظام رائج ہو سکے اور کسی کے ساتھ نا انصافی نا ہو۔
وزیرِ تعلیم ونود تاوڈے نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ سی بی ایس ای جیسے تعلیمی بورڈ سے پاس ہونے والے کل طلباء میں سے صرف چار فیصد مہاراشٹر تعلیمی بورڈ سے وابستہ جونیئر کالجوں میں گیارہویں میں داخلے کے خواہاں تھے۔
انہوں نے ناراض والدین سے کہا کہ اس معاملے پر مرکزی HRD کی وزارت سے تبادلہ خیال کیا جائے گا۔والدین کی اس درخواست پر غور کرنے کی وزیرِ تعلیم نے حامی بھر لی اور اب عمل بھی در آمد کیا گیا ۔حقیقتاً امسال ہر مضمون کا 80 مارکس کا پرچہ ہوگا اور طلباء کو 20 انٹرنل مارکس(داخلی نمبرات) دیئے جائیں گے۔
تاہم داخلی نمبروں کی دوبارہ بحالی کی اہم وجہ یہ سمجھی جاتی ہے کہ مہاراشٹر ایجوکیشن بورڈ کے زیر اہتمام دسویں کے امتحانات میں بہت سے طلبا نے انٹرنل مارکس کے بغیر کم نمبرات حاصل کئے جن کے نتائج کا اعلان حال ہی میں کیا گیا تھا۔لگ بھگ چار لاکھ طلبا مراٹھی زبان جیسے مضمون میں ناکام ہوئے۔
طلباء کو یہ انٹرنل مارکس منصوبوں/سرگرمیاں/زبانی امتحان ( پروجیکٹس/ایکٹیویٹیز/اورل ایگز ام) کی بنیاد پر دیئے جائیں گے۔یہ پروجیکٹس/ایکٹیویٹیز مضامین کے اساتذہ پر منحصر ہے کہ کیا دینا ہے؟ایس ایس سی بورڈ نے اساتذہ کو ٹرینینگ دے کر یہ 20 مارکس کیسے دینا ہے وہ اچھی طرح سے سمجھایا ہے۔
راقم الحروف کا ماننا ہے کہ گزشتہ سال داخلی نمبرات ختم کرنے کا مہاراشٹر بورڈ نے ایک اچھا فیصلہ کیا تھا کیوں کہ یہ انٹرنل20 مارکس رحمت کے ساتھ ساتھ زحمت بھی ثابت ہو رہے ہیں۔طلباء کی ایک بڑی تعداد کو خواہ مخواہ یہ بھروسہ ہو چلا ہے کہ وہ یقینی طور پر پاس ہوں گے اور وہ 80 مارکس کی پڑھائی کی طرف سے لاپرواہی برت رہے ہیں۔ کمزور طلباء کو جیسے ایک سہارا فراہم کیا گیا ہے۔وہ ایک مغالطہ میں ہیں۔ محنتی طلباء کو واقعی ان مارکس کے سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی کیوں کہ وہ ہر طرح کے حالات میں،ہر طرح کے نظام میں اپنی محنت کے بل بوتے پر اپنا آپ منوا کر رہتے ہیں۔ موجودہ دور میں تعلیم نے تجارت کا رخ اختیار کیا ہے۔بعض اساتذہ بھی ان انٹرنل مارکس کا بڑا نا جائز فائدہ اٹھاتے ہیں جو کہ بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔
از قلم: رفیقہ پلّوکر
مقام: موربہ۔تعلقہ: مان گاؤں۔ضلع: رائے گڑھ۔

Post a Comment

0 Comments